7.30.2019

Importants of Personal library


Image may contain: Myousif Joyo, smiling
محمد یوسف جویو     

          ذاتی  یا نجی لائبریری کی  اہمیت
                   
    لائبریری  یا  کتب خانہ  عام  طور  پر  چار  اقسام  کے  ہوتے  ہیں جیسے  کے عوامی کتب خانے  تعلیمی ادارے کا کتب خانہ    خاص یا مخصوص موضوع  پر کتب خانہ اور ملک کے قومی کتب خانہ وغیرہ  ان کے علاوہ بھی کچھ اور کتب خانے ہوتے ہیں جو معاشرے کے سدھار  اور ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جن میں ذاتی یا نجی کتب خانہ  اپنی ایک الگ حیثیت اور اہمیت کا حامل ہے۔ میرے خیال  کے مطابق : "کسی شخص کے گھر میں،  بیٹھک میں یا الگ مخصوص جگھ وغیرہ میں اپنی ذاتی یا نجی بنیاد پر لائبریری قائم کی ہو اور اس میں اپنی پسند کی بنیاد پر خرید کیئے ہوئے کتابیں، رسائل و اخبار وغیرہ جمع  کیا  ہوا  ہو تو  اس کو ذاتی لائبریری  کہتے ہیں"۔  ذاتی کتب خانوں کے مالک تیں قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ جس کو خاندانی ورثے میں کتابیں ملتی ہیں اور وہ اس کو سنبھال تے   آرہے ہوں دوسرے وہ ہوتے ہیں جس کو علم و ادب سے لگاو ہوتا ہے اور ساتھ ہی میں صاحبِ حیثیت ہوتے ہیں اور آخری وہ لوگ ہوتے ہیں جو  صاحبِ حیثیت نہیں ہوتے  بلکِ کتابوں سے عشق کی حد تک محبت کرتے ہیں یہاں تک کے اپنی ساری جمع پونجی سے کتابیں خرید کر پڑھتے  اور جمع کرتے رہتے ہیں اور اس طرح  ان کے پاس ایک  عالیشان  کتب خانہ تیار ہو جاتا ہے۔ ہاں  اس طرح ذاتی کتب خانے بنتے ہیں  اور ان کتب خانوں کے بھی دو اقسام   کے ہوتے ہیں ایک وہ  ذاتی  کتب خانہ جس کے  دروازے  دوسروں پڑھنے والوں کے لیئے کھلے رہتے ہیں،   دوسرے ایسے کتب خانے ہیں  جن کے دروازے دوسرے    پڑھنے والوں کے لیئے    بند رہتے ہیں  اور کتابیں چھپائی جاتی ہیں بلکِ  دیکھنے   کے لیئے بھی نہیں دکھاتے ہیں ۔ ہمارے معاشرے میں اس قسم  کے کئی کتب خانے  آج بھی موجود ہیں۔ ذاتی لائبریری  لوگ  اپنی  دلچسپی   اورتعلیمی دلچسپی کے مطابق قائم کرتے ہیں جیسے کے  ایم ایچھ پنہور صاحب کی لائبریری کا مواد زیادہ طور پر ایگرکلچر، سائنس اور تاریخ  پر  ہے۔ اسی    طرح  کسی ذاتی لائبریریون میں پرانا مواد جیسے کے ہاتھ کے لکھے ہوئے مخطوطات  یا  خاندنوں  کے پرانے شجرے  یا قدیمی کتاب وغیرہ اکثر  ملتے  ہیں کن گھروں میں تو تاریخی اشیاءبھی  ملتی ہیں۔ ایسے ایک ذاتی  لائبریری کے مالک سے جب میری گفتگو ( کچہری)  ہوئی تو اس نے بتایا کہ "آج  کے اِس جدید دور میں ذاتی لائبریری  کی اہمیت اور افادیت بڑھ گئی ہے کیوں کہ ہمارے معاشرے میں پڑھنے کی عادت کم ہوتی جا رہی  ہے  اور  کتابوں سے  آنے  والی نئی نسل دُور، اور  نا اشنا  ہوتی جارہی ہے  تو گھر میں کتابوں کا ہونا ہمارے نئی نسل کے لیئے انتہائی  ضروری ہے"۔ ہاں بلکل، مینے حامی بھرتے ہوئے کہا؛ میں سمجھتا ہوں کہ ذاتی لائبریری ہونے سے یہ ہی  تو  بڑا  فائدا  ہے۔   اگر  گھر میں کتاب موجود ہونے سے گھر کے افراد، نوجواں اور بچے وغیرہ ان کتابوں کو دیکھتے ہیں، ہاتھوں میں اٹھاتے ہیں اور پھر پڑھتے ہیں۔ اس طرح  پڑھنے کی عادت پڑتی ہے  ، زندگی کی گرمی و سردی اور معاشرے اندر پیدا ہونے والی تبدیلیوں کو سمجھنے لگتا ہے۔ گھر میں کتاب ہونے سے بچے یا نوجوان کے تعلیمی امتحان کے حوالے سے یا  ان کی تیاری  اپنے گھر کے کتابی  ماحول سے ہوتی ہے۔ اس لیئے کہتے ہیں کہ کتب خانہ مہذب معاشرے کی نشانیاں ہوتی ہیں۔ شاید اس لیئے ہمارے بزرگوں، ادیبوں، استادوں، سیاستدانوں، دانشوروں اور لکھنے پڑھنے کا ذوق رکھنے والوں نے اپنے گھروں میں ذاتی لائبریری قائم کر رکھی ہے۔ 
                    اس جدید دور میں علم و ہنر  کے ہر شعبے میں، سائنس  و ٹیکنالائجی  آگئی ہے، جس کے نتیجے بہتر نکل رہے ہیں اور علم وہنر کے ہر شعبے تک عام و خاص کی رسائی آسان ہوگئی ہے۔  اب تو هر کام  کمپیوٹر اور ٹیکنالائجی کے تابع ہو چکا ہے اور آج تو  ذاتی لائبریری کے لیئے کمپیوٹر سافٹ ویئر  آگئے ہیں تاکے ان سافٹ ویئر کو استعمال کرکے  اپنی ذاتی لائبریری کو نئیں اور جدید انداز میں بنا سکے  یا  آن لائن کر سکے ایسے سافٹ ویئر  مفت میں مختلف کمپنیوں نے بنا کے رکھے ہیں وہ سب اوپن سورس کھلاتے ہیں ، ان تک رسائی بلکل آسان ہے۔ لائبریری کو  آن لائن کرنے سے ایک یہ فائدہ ہے کہ کتاب بھی محفوظ ہے اور دوسرے عالمِ انسان بھی ان میں سے فائدے بھلے اٹھاتے رہیں۔ ہمارے معاشرے کا یہ المیہ ہے کہ اب یہ ذاتی لائبریریاں آھستہ آھستہ ختم ہوتی جارہی ہیں،  ان کا  بڑا سبب یہ ہے کہ جن بزرگ شخصیات کے پاس اپنی   ذاتی  لائبریری ہوتی تھی،  ان کے آگے ایک بڑا  سوال  یہ ہے کہ ہمارے بعد ان کتابی خزانے کا کیا ہوگا؟  یہ سوال اس لیئے پیدا ہوتا ہے کہ ان کے بعد آنے والی نسل کتابوں میں  دلچسپی نہیں لئے تے، یہاں تک کہ پڑھنے کی عادت بھی ختم ہوتی جارہی ہے۔ہمارے معاشرے کے  خاص طور پر نوجوان کمپیوٹر اور موبائیل فونز پر مصروف  رہتے ہیں  ان کو وقت ہی نہیں ملتا کہ کتاب کو  پڑھیں جب کہ کتاب ان کے موبائیل فونز اور آنلائن نیٹ پر موجود ہے یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کا کتاب  کی اہمیت اور افادیت پر  کچھ اثر ضرور پڑا ہے۔ اس لیئے ذاتی لائبریریوں کے مالکان نے یہ سوچ کر اپنی  لائبریریاں ملک کے علمی و ادبی یا قومی اداروں کو تحفے میں دیں یا  ان  کو  چند  پیسوں  پر بھیج  دیں،  ایسے کئی مثالیں موجود ہیں جن میں سے چند  درجہ ذیل ہیں:
v   ملک کے موجد محترم قائد اعظم محمد علی جناح  اور قائدِ ملت لیاقت علی خان  کا  ذاتی کتب خانہ قومی  ورثے میں لیا گیا
v   ملک کے نامور محقق اور حکیم محمد سعید نے اپنا ذاتی کتب خانہ، اپنی ھی قائم کردہ ھمدرد یونیورسٹی کی بیت الحکمت لائبریری  کے حوالے کردیا
v   سندہ   کے ادیب ، تعلیمی ماہر اور سیاسی دانشور محمد ابراہیم جویو نے اپنی ذاتی لائبریری سندھی ادبی بورڈ، جامشورو کو بِطور تحفے میں دی
v   پاکستان کمیونسٹ پارٹی کے لیڈر اور ادیب سوبھو گیانچندانی نے اپنی ذاتی لائبریری سندھ آرکاوئیز کو  کچھ پیسوں پر بھیج دیں
v   سندھ کے بہت بڑے ادیب  اور خاص طور پر  لوک ادب کے محقق ڈاکٹر نبی بخش بلوچ نے اپنی ذاتی لائبریری کو  سندھ یونیورسٹی جامشورو کی سینٹر لائبریری کے حوالے کیا
v   مشہور تعلیمدان شاہ محمد شاہ نے اپنی ذاتی لائبریری  آئی'بی'اے سکھر کے حوالے کردی
ان شخصیات کے ذاتی کتب خانوں کے علاوہ بھی ہمارے ملک میں کئی  ایسے شخصیات ابھی تک زندہ سلامت موجود ہیں، جن کی ذاتی کتب خانے ایک انمول خزانے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جن میں سندھ کے  اساتذا ، ادیب ،محققین،  دانشور اور سُگھڑ(لوک ادیب) وغیرہ شامل ہیں،  جیسے کہ مظہر جمیل-کراچی،  تاج جویو-حیدرآباد،  ٹی وی ڈرامہ رائیٹر عبدالقادر جونیجو-جامشورو،  پروفیسر امر لغاری- سانگھڑ،   سائین الھورایو بھن-سانگھڑ،  در محمد پالاری-سری کوھستان، اور پروفیسر گل محمد شاہ بخاری-شھداد کوٹ وغیرہ شامل ہیں۔ذاتی کتب خانے قائم رہنے چاہیئے کیوں کہ ہمارے معاشرے میں اخلاقیات، برداشت اور آگہی حاصل ہوتی ہے۔ کتاب دوستی سے معاشرے میں امن لایا جاسکتا ھے اور قومیں ترقی کرسکتی ہیں، اسی طرح اپنے گھر میں ذاتی لائبریری قائم کرنے سے اور بھی بہت سے فائدے ہیں جن میں سے چند درجہ ذیل ہیں:
Ø    علم و ادب  سے چاہ پعدا ہوتا ہے اور پڑھنے کی عادت پڑتی ہے
Ø    اپنے ہی گھر میں دنیا کے علم اور سائنس کی معلومات ملتی ہے
Ø    اپنے گھر  کی  لائبریری سے  آدمی  ادب،  زبان،  تاریخ، فلسفہ، اور مذہبی معلومات  وغیرہ  کا  علم حاصل کرتا رہتا ہے
Ø    کتاب دوستی بڑھتی ہے شعور آتا ہے، شخصیت میں نکھار آجا تا ہے۔اس کے ساتھ خودبرداشت، اخلاقیات اور سوچ میں وسعت پیدا ہوتی ہے
Ø    گھر میں ذاتی لائبریری ہونے سے آدمی اپنی زندگی کے ہر مسئلے اور معاملے کا حل علم  کی روشنی میں ڈھوڈتا ہے
حقیقیت میں کتب خانہ علم، عقل  اور شعور کے حقیقی ذریعے ہوتے  ہیں اور یہ تہذیب تمدن، ثقافت،  ادب،  لوک ادب، زبان اور  تاریخ کے بھڈار سمجھے جاتے ہیں، اس لیئے ہمیں  اپنے قومی  ورثے  کی  شناخت قائم رکھنی ہے تو  کتابوں سے  دل  لگائیں۔ کہتے ہیں کہ قوموں کے  زوال  کا سبب تعلیم  کا  زوال ہے اور تعلیم  کا  زوال کتب خانوں کا زوال ہے، لحاظہ ہمیں  زندہ قوم  اور  کامیاب  قوم بن کے رہنا ہے  تو  پھر  لازمی  ہے کہ اپنے گھروں،  گائوں،  شھروں  اور تعلیمی  اداروں  میں کتب خانے قائم کریں تاکہ اپنی تعلیم کا معیار اوچا رہے ، قوم بھی زوال سے بچے اور ترقی کرے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں